رحمة للعالمین صلے اللہ علیہ وسلم اور اہل مکہ

از:         مولانا توحید عالم بجنوری              

استاذ عربی، دارالعلوم دیوبند                       

 

 

ظہورِقدسی

آفتابِ ہدایت، امام الانبیاء، حبیب کبریا حضرت محمد مصطفی صلے اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لاتے ہیں تو صورتِ حال یہ تھی کہ ولادت مبارکہ سے پہلے ہی والد بزرگوار حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کا انتقال ہوچکا تھا؛ لیکن دادا محترم خواجہ عبدالمطلب خود بھی یتیمی کا زمانہ دیکھ چکے تھے؛ اس لیے اپنے چوبیس سالہ نوجوان پیارے فرزند عبداللہ کی اس یادگار کو بہت پیار اور محبت دیتے تھے؛ چنانچہ پیدائش کی خبر پاتے ہی نومولود کو بی بی آمنہ سے لے کر خانہ کعبہ میں لے گئے اور دعاء وغیرہ سے فراغت کے بعد لائے اور محمد نام رکھا؛ جب کہ والدہ ماجدہ نے الہامی نام احمد رکھا، دونوں ہی نام عرب معاشرہ کے لیے نئے تھے۔ قریش نے عبدالمطلب سے کہا کہ یہ نام تو بالکل نیا ہے، تو جواب دیا کہ مسمّیٰ ہی نرالہ ہے سردار مکہ نے ساتویں دن ولیمہ کیا اور تمام قریش کی دعوت کی، آپ کے چچا ابولہب نے جب بھتیجہ کی ولادت باسعادت کی خبرسنی تو اپنی کنیز ثویبہ کو نومولود کی خدمت کے لیے آزاد کردیا، یہ اُن خوش نصیب خواتین میں سے ہیں جن کو رحمة للعالمین کو دودھ پلانے کی سعادت میسر ہوئی؛ کیوں کہ ابتداء میں آپ صلے اللہ علیہ وسلم کو حضرت آمنہ نے اور ان کے بعد حضرت ثویبہ نے دودھ پلایا، انھوں نے ہی حضرت حمزہ رضي الله عنہ کو بھی دودھ پلایا تھا؛ اسی لیے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آپ صلے اللہ علیہ وسلم کے چچا بھی تھے اور دودھ شریک بھائی بھی، پھر حضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلانے کی سعادت عظمیٰ حضرت حلیمہ سعدیہ کے حصہ میں آئی، جو ظہور اسلام کے بعد مسلمان ہوئیں رضی اللہ عنہا وعنہم۔

والدہ ماجدہ اور دادا محترم سے مفارقت

قضا وقدر کا کرشمہ ہی تھا کہ چھ سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے، اسی عہد طفولت میں والدہ ماجدہ بھی خداکو پیاری ہوگئیں؛ لیکن دادا محترم کا مشفقانہ سایہ ابھی باقی تھا تربیت وپرورش کی ذمہ داری بھی دادا محترم فرمارہے تھے، ابھی ماں کا غم غلط بھی نہ ہوا تھا کہ دادا بھی داغ مفارقت دے کر خدا کو پیارے ہوگئے، اب تربیت وپرورش کا بار چچا محترم ابوطالب نے بڑی خوش اسلوبی اور انتہائی شفقت ومحبت کے ساتھ اٹھایا اور ماں باپ ، یا دادا کے غم کو غلط فرمانے میں مکمل تعاون دیا؛ لیکن خداوند قدوس اپنے محبوب کو اس طریقے کے واقعات وحوادثات سے اشارہ دینا چاہتا تھا کہ اصل مربی اور رب وہ ذات ہے جو حَیٌّ لاَیَمُوْتُ ہے اور آپ صلے اللہ علیہ وسلم کو ظاہری مربیوں کی تربیت اور پرورش سے بے نیاز فرمادیا یا پھر ایسی پرورش ہوئی کہ ساری دنیا بھی مل کر نہ کرسکے، لہٰذا عجیب شان والا بچہ ہے اور نرالے اوصاف سے متصف ہے کہ نہ کھیل ہے نہ کود، نہ بچوں سی ضد ہے اور نہ بیہودہ حرکتیں، نہ لڑائی ہے نہ جھکڑا؛ بل کہ ایسے اوصاف ہیں جو بڑوں بڑوں میں ناپید ہیں، ہمیشہ سچ بولنا اور سچ کو فطرتِ ثانیہ بنالینا کہ عرب صادق کالقب دینے پر مجبور ہوئے؛ حالانکہ اس دورِ جاہلیت میں خلافِ واقعہ اور جھوٹ کو ایک کمال تصور کیا جاتا تھا، اسی طرح امانت ودیانت آپ صلے اللہ علیہ وسلم میں اس قدر پائی جاتی تھی کہ عبداللہ کے اس دُرِّ یتیم اور آمنہ کے لعل کو قریش امین سے یاد کرتے تھے، جب کہ اس شرور وفتن کے دور میں بچوں کو چھوڑئیے بڑوں میں بھی شاذ ونادر ہی امانت ودیانت پائی جاتی تھی۔

نکاح

بچپن سے جوانی تک آپ صلے اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ اور عباداتِ مبارکہ سے قریب قریب تمام قریش متاثر تھے، اسی لیے تمام مکہ میں آپ صلے اللہ علیہ وسلم کو پیار، محبت، شفقت اور الفت خوب خوب ملی اور ہر طرف آپ صلے اللہ علیہ وسلم کے بلند کردار، اچھے اخلاق اور پاکیزہ عادات وصفات کا چرچہ تھا، شدہ شدہ یہ خبریں ایک پاکباز اور خوش بخت خاتون حضرت خدیجہ بنتِ خویلد کو بھی پہنچیں اور یہ خاتون پہلے سے دوشوہروں کے ساتھ رہ چکی تھیں، صاحب اولاد تھیں، ساتھ ہی صاحبِ ثروت ودولت بھی، لہٰذا اس خاتون نے آپ کو اپنا مال لے کر ملک شام تجارت کے لیے بھیجا اور اپنے ایک غلام میسرہ کو ساتھ میں لگایا پورے سفر میں اس غلام نے آپ کے اعلیٰ اخلاق اور بلند کردار وعادات کا خوب خوب مشاہدہ کیا اور تجارت میں بھی خوب نفع حاصل ہوا، واپسی پر غلام میسرہ نے خدیجة الکبریٰ سے حالاتِ سفر بیان کیے، تو آپ کے اخلاق، کردار، عادات اور اوصاف بیان کرتے کرتے تھکتے نہ تھے جس کا خدیجہ رضي الله عنہا کے دل پر عجیب اثر ہوا، لہٰذا انھوں نے اپنی خواتین سے مشورہ کرکے آپ کو پیغامِ نکاح دیا، یہ خاتون اگرچہ بیوہ تھیں؛ لیکن بڑے بڑے سرداروں کے پیغامات ٹھکراچکی تھیں اور آپ کو سنتِ انبیاء پر عمل کرنا اور امت کو سبق دینا تھا، لہٰذا چچابزرگوار حضرت ابوطالب سے مشورہ کیا اور اشارہ پاکر پیغام قبول فرمایا۔ واضح رہے کہ عین عنفوانِ شباب کا عہد تھا، اگر نفسانی خواہشات کی تکمیل مقصود ہوتی تو اپنے سے پندرہ سال بڑی اور صاحب اولاد بیوہ خاتون سے عقد نہ فرماکر کسی دوشیزہ اور نوجوان خوبصورت وخوبرو لڑکی سے عقدِ نکاح ہوتا؛ البتہ حضرت خدیجہ بنت خویلد بھی معزز اور شریف خاندان وقبیلہ سے تھیں، جیساکہ آپ نجیب الطرفین تھے، یعنی آپ صلے اللہ علیہ وسلم کا دَدْھیال اور نَنْھیَال دونوں ہی عرب کے بہترین قبیلے، بہترین قوم اور بہترین شاخ تھے، یہی وجہ بھی تھی کہ آپ کا تمام قریش ادب واحترام کرتے تھے، پس آپ کے عقد مسنون میں تمام رؤساءِ قریش شریک ہوئے اور خطبہ ابوطالب نے پڑھا اور یہ نکاح نہایت بابرکت ثابت ہوا۔

قیامِ امن انجمن کا قیام

اس نکاح اور عقد کے بعد آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا سارا وقت عبادتِ خدا اور بنی آدم کی فلاح و بہبود اور خیر اندیشی میں مصروف رہتا تھا، انہی دنوں آپ نے اکثر قبائل کے سرداروں اور باشعور لوگوں کو ملک کی بے امنی، راستوں کا خطرناک ہونا، مسافروں کا لٹنا اور غریبوں، کمزوروں اور زیردستوں پر زبردستوں کا ظلم بیان کرکے ان سب باتوں کی اصلاح پر توجہ دلائی، آخر ایک انجمن اور کمیٹی قائم ہوئی جس میں بنوہاشم، بنومطلب، بنواسد، بنوزہرہ اور بنوتمیم شامل ہوئے اور اس انجمن وکمیٹی کے اہم مقاصد یہ تھے: (۱) ملک سے بے امنی دور کرنا (۲) مسافروں کی حفاظت کرنا (۳) غریبوں کی امداد کرنا اور (۴) زبردستوں کو زیردستوں پر ظلم کرنے سے روکنا (رحمة للعالمین،ج۱،ص۴۳)

واقعہٴ تحکیم

اسی طرح جب تعمیرکعبہ کے موقع پر حجرِ اسود کو نصب کرنے میں تمام قبائل قریش باہم شدید اختلاف کا شکار ہوئے یعنی ہر قبیلہ اور خاندان حجراسود کو نصب کرنے کی دولت اور سعادت حاصل کرنا چاہتا تھا یہ اختلاف جب حد سے تجاوز کرگیا تو ابوامیہ بن مغیرہ نے رائے دی کہ کسی کو حَکَم اور فَیْصَل بنالیاجائے، پھر اس کے فیصلہ اور حکم پر عمل کیا جائے، اپنے سب سے معمَّر شخص کی رائے کو تمام قبائل نے پسند کیا اوریہ طے ہوا کہ کل صبح خانہٴ کعبہ میں جوسب سے پہلے آئے وہی حَکَمْ ہوگا، حسن اتفاق کہ سب سے پہلے حرم شریف میں آنے والے شخص حضرت محمد صلے اللہ علیہ وسلم تھے اور جب قریش نے دیکھا کہ محمد ہیں تو خوشی سے نعرہ لگایا ھٰذَا لَأمینٌ رضیناہ (امین آگئے ہم سب راضی اور خوش ہیں) چنانچہ آپ نے ایسا حکیمانہ فیصلہ فرمایا کہ کسی کی نہ دل شکنی ہوئی اور نہ کوئی اس دولت وسعادت سے محروم رہا (ہادیٴ عالم ص ۵۳)

قرب زمانہٴ بعثت

جب بعثت کا زمانہ قریب ہوا تو آپ کو آبادی سے وحشت ہونے لگی اور آپ تنہائی تلاش کرنے لگے؛ چنانچہ پہاڑوں میں جاکر غارِ حراء میں کئی کئی دن قیام فرماتے، ستو اور پانی اپنے ہمراہ لے جاتے یاکبھی کبھی حضرت خدیجہ رضي الله عنہا  ہی کھانا وغیرہ پہنچادیتی تھیں، وہاں عبادتِ خداوندی میں مصروف رہتے، اس عبادت میں تحمید وتقدیسِ الٰہی کے ساتھ قدرتِ الٰہیہ پر تدبر وتفکر بھی شامل تھا، اسی وقت آپ کو رات میں خواب دکھنے شروع ہوئے اور یہ خواب نہایت سچے ہوتے تھے، یعنی جو کچھ رات میں خواب میں نظر آتا، دن میں ویسا ہی ظہور میں آتا۔ (رحمة للعالمین بحوالہ مشکوٰة شریف عن عائشة رضي الله عنہا ص۵۱۳)

بعثت ونبوت

جب آپ کی عمر قمری حساب سے چالیس سے ایک دن اوپر ہوئی، وہ دوشنبہ کا دن تھا، تو حضرت روح الامین علیہ السلام حکمِ نبوت لے کر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے، اس وقت آپ غارِ حرا کے اندرعبادت میں مصروف تھے، حضرت روح الامین علیہ السلام نے فرمایا: محمد! بشارت قبول کیجیے، آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرئیل ہوں!

تبلیغ کا آغاز

اس کے بعد ایک عرصہ تک سلسلہٴ وحی بند رہا، یہی فطرتِ وحی کا زمانہ کہلاتا ہے۔ پھر وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو آپ نے دامنِ کوہ سے واپس ہوکر تبلیغ شروع فرمادی، یہاں سے تبلیغِ اسلام اور اشاعتِ دین کا آغاز ہوا؛ بل کہ یوں کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ مصائب وآلام کا دور شروع ہوا، جب آنحضرت نے نبوت اور وحدتِ خداوندی کا اعلان فرمایا تو خواتین میں خدیجہ رضی اللہ عنہا، دوستوں میں ابوبکر رضی اللہ عنہ، بچوں میں علی رضی اللہ عنہ، غلاموں میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور باندیوں میں حضرت ثویبہ مشرف باسلام ہوئے، یہ سب وہ حضرات اور شخصیات ہیں، جو آپ کے چالیس سال کے لمحہ لمحہ اور ہر ہر حرکت وسکون سے واقف تھے، ان سب کا اولِ وہلہ میں مسلمان ہوجانا آپ کی اعلیٰ صداقت اور راست بازی کی قوی دلیل ہے؛ لیکن قریش میں کھلبلی مچ گئی اور وہ لوگ جو زنا، جوا، قتل، عہد شکنی، آوارگی، ہر ایک قانون ووعدہ کی بندش وقیود سے آزاد رہنے، بے شمار عورتوں کو گھر میں ڈال رکھنے کے عادی تھے اور قانونِ اسلام انکو اپنی پیاری بل کہ محبوب ترین عادت کا دشمن معلوم ہوتا تھا، لہٰذا انھوں نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر کمر باندھ لی اور اسلام کا نام ونشان مٹانے کا فیصلہ کرلیا، چنانچہ وہی قبائلِ قریش جو آپ صلے اللہ علیہ وسلم کو پیار ومحبت دیتے تھے، جان کے دشمن بن گئے، جوادب واحترام کرتے تھے، اب وہ نام لینا بھی گوارہ نہ کرتے تھے نام ونشان مٹانے کے درپے ہوگئے، وہی چچا جو خوشی میں باندی کو آزاد کرچکا تھا، طرح طرح سے تکالیف پہنچانے لگا۔

رحمة للعالمین کے ساتھ قریش کی بدسلوکیاں

بسا اوقات نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھائے جاتے؛ تاکہ پاؤں مبارک زخمی ہوں، آپ کے دروازے پر غلاظتیں اور گندی چیزیں پھینکی جاتیں؛ تاکہ صحت اور جمعیتِ خاطرمیں خلل پیدا ہو، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضي الله عنہ  کا چشم دید بیان ہے کہ ایک روز آپ صلے اللہ علیہ وسلم صحن کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے، عتبہ بن ابی معیط آیا اور اپنی چادر کو لپیٹ کر رسّی جیسا بنایا جب اللہ کا رسول صلے اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گیا تو چادر حضرت کی گردن میں ڈال کر پیچ پر پیچ دینے شروع کئے اور آپ کی مبارک گردن بہت بھچ گئی تاہم رسول اللہ اسی اطمینانِ قلب سے سجدے میں پڑے رہے؛ تاآنکہ ابوبکر رضي الله عنہ وہاں آئے ، انھوں نے عتبہ کو دھکا دے کر ہٹایا اور فرمایا جو آیت مبارکہ ہے: أتقتلون رَجُلاً أنْ یقولَ ربّی اللہُ وقد جاء کم بالبینات (کیا تم ایسے بزرگ آدمی کو مارتے ہو اور صرف اس جرم میں کہ وہ اللہ کو اپنا پروردگار کہتا ہے اور تمہارے پاس روشن دلائل بھی لے کر آیا ہے) (رحمة للعالمین بحوالہ بخاری شریف باب ما لقی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من المشرکین)

ایک اور واقعہ ہے کہ آپ حرم شریف میں نماز میں مشغول تھے اور قریش بھی بیٹھے ہوئے تھے مردود ابوجہل نے کہا کہ آج شہر میں فلاں جگہ اونٹ ذبح ہوا ہے اوجھڑی پڑی ہوئی ہے، کوئی جاکر اٹھالائے بدبخت عتبہ اٹھا اور نجاست بھری اوجھ اٹھالایا جب نبی صلے اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو مبارک پیٹھ پر رکھ دی، آنحضرت تو رب العزت کی طرف متوجہ تھے کچھ خبر بھی نہ ہوئی کفار مارے خوشی اور ہنسی کے لوٹے جاتے تھے۔

ایذا رسانی کی باقاعدہ کمیٹی

نبی صلے اللہ علیہ وسلم پر جو ظلم وزیادتی اور جوروستم ہورہے تھے کفار قریش انھیں ہنوز ناکافی سمجھتے تھے، چنانچہ متفرق کوششوں کے لیے باقاعدہ کمیٹی تشکیل دی، جس کا میرِ مجلس اور امیر عبدالعزّٰی ابولہب مقرر ہوا اور مکہ کے پچیس رؤسا اور سردار اس کے ممبران منتخب ہوئے، اس کمیٹی کی مہم اور ذمہ داری یہ طے ہوئی کہ جو لوگ دور دراز کے علاقوں سے مکہ آئیں، انھیں اللہ کے نبی محمد صلے اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا جائے؛ تاکہ وہ ان کی باتیں نہ سنیں اور ان کی عظمت اور توحید ورسالت کے قائل نہ ہوں، ایک نے کہا کہ ہم کاہن بتلائیں گے، ولید بن مغیرہ بولا میں نے بہت سے کاہن دیکھے ہیں، ان کی باتوں میں اور محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی باتوں میں یگانگت نہیں ہے؛ اس لیے عرب ہمیں جھوٹا کہیں گے، پس کچھ اور کہاجائے، دوسرے نے کہا دیوانہ کہیں گے، ولید نے کہا محمد کو دیوانگی سے کیا نسبت ہے، ایک بولا ہم شاعر کہیں گے، ولید بولا ہم خوب جانتے ہیں کہ شعر کیا ہوتا ہے، اصنافِ سخن ہم کو بخوبی معلوم ہیں محمد کے کلام کو شعر سے ذرہ بھی مشابہت نہیں، کسی نے کہا ہم جادوگر کہیں گے ولید نے کہا محمد جس طہارت، نفاست اور لطافت سے رہتا ہے وہ ساحروں اور جادوگروں میں کہاں ہوتی ہے، سب نے عاجز وقاصر ہوکر کہا چچا آپ ہی بتائیں ہم کیا کہیں، ولید نے کہا کہ کہنے کے لیے بس ایک بات ہے کہ اس کے کلام میں کچھ ایسا اثر ہے جس سے باپ بیٹے، بھائی بھائی اور میاں بیوی میں جدائی ہوجاتی ہے؛ اس لیے اس کی باتوں کے سننے سے بچا جائے اور پرہیز کیا جائے یہ تجویز منظور ہوگئی۔ (سیرت ابن ہشام، ج۱،ص۹۰)

دوسری کمیٹی یہ بنائی گئی کہ محمد کو طرح طرح سے دق اور پریشان کیا جائے، بات بات میں اس کی ہنسی اڑائی جائے، تمسخر اور ایذا سے اُسے سخت تکالیف دی جائیں اور محمد کو سچا جاننے اور ماننے والوں کو انتہائی درجہ کی تکالیف سے دوچار کیا جائے۔

جاں نثاروں پر ظلم وستم

چنانچہ تمام مسلمانوں اور ہمدردانِ نبی کو شعب ابی طالب میں بائیکاٹ کرکے قید کیاگیا، حضرت بلال حبشی رضي الله عنہ  کو امیہ بن خلف گلے میں رسی ڈال کر اوباش لڑکوں کو دے دیتا وہ ان کو پہاڑوں اور پتھروں میں گھسیٹتے پھرتے، مکہ کی گرم اور تپتی ریت پر انہیں لٹادیاجاتا اور گرم پتھر ان کی چھاتی پر رکھ دیے جاتے، مشکیں باندھ کر لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹا جاتا، دھوپ میں بٹھادیا جاتا، بھوکا پیاسا رکھا جاتا، حضرت بلال رضي الله عنہ  ان تمام ایذاؤں پر صبر فرماتے تھے، ایک مرتبہ صدیق اکبر رضي الله عنہ  نے دیکھ لیا تو خرید کر آزاد فرمادیا، حضرتِ عمار رضي الله عنہ ، ان کے والد حضرت یاسر رضي الله عنہ  اور والدہ حضرت سُمیَّہ رضي الله عنہا  کو مختلف سزائیں دی جاتی تھیں، مردود ابن ہشام ابوجہل نے ایک برچھا حضرت سمیہ رضي الله عنہا  کی اندام نہانی پر مارا جس سے بیچاری انتقال کرگئیں اور اسلام میں پہلی شہادت پیش کرنے والی خاتون ہوئیں۔ حضرت ابوفکیہہ رضي الله عنہ  جن کا نام افلح تھا ان کے پاؤں میں زنجیریں باندھ کر پتھریلی زمین پر گھسیٹا جاتا، حضرت خباب بن ارت رضي الله عنہ  کے سرکے بال کھینچے جاتے، گردن مروڑی جاتی اوربارہا آگ کے دہکتے ہوئے شعلوں اور انگاروں پر لٹایا جاتا، حضرت عثمان بن عفان رضي الله عنہ  کے اسلام لانے کا علم جب ان کے چچا کو ہوا تو کمبخت حضرت عثمان رضي الله عنہ  کو کھجور کی چٹائی میں لپیٹ کر باندھ دیتا اور نیچے سے دھواں دیا کرتا تھا، حضرت مصعب بن عمیر رضي الله عنہ  کو ان کی والدہ نے گھر سے نکال دیا تھا جرم صرف اسلام کا قبول کرنا تھا، بعض جاں نثاروں کو قریش گائے اور اونٹ کے چمڑوں میں لپیٹ کر دھوپ میں پھینک دیتے تھے اور بعض کو لوہے کی زرہیں پہناکر پتھروں پر گرادیتے تھے، انتہا یہ ہوئی کہ گھربار چھوڑنے پر مجبور کیا، کبھی اسلام کے شیدائی حبشہ کی جانب ہجرت کرتے ہیں اور کبھی یثرت (مدینہ منورہ) کی طرف اور شہر چھوڑنے کے بعد بھی پیچھا نہیں چھوڑا کبھی نجاشی کے دربار میں مسلمانوں کے خلاف شکایات لے کر گئے اور کبھی مدینہ پر بار بار چڑھائی کرکے مسلمانوں اور اہل اِسلام کو پریشان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی؛ لیکن ہجرتِ مدینہ اور ہجرتِ حبشہ اسلام کی ترقی کے لیے سنگِ میل ثابت ہوئیں؛ چنانچہ اسلام کو رفتہ رفتہ عروج ہوتا رہا۔

قریش کی عہد شکنی

کفارِ مکہ ابھی تک اپنی حرکات سے باز نہیں آئے تھے کہ اسی دوران صلح حدیبیہ کا واقعہ بھی پیش آیا اور کفارِ مکہ نے اپنی دیرینہ عادت کے موافق صلح کی خلاف ورزی کی؛ کیونکہ معاہدہ تھا کہ دس سال تک باہم جنگ اور لڑائی نہیں ہوگی اور جو قبائل چاہیں قریش سے مل جائیں اور جو چاہیں مسلمانوں سے مل جائیں، پس بنوبکر نے قریش کا ساتھ دینا پسند کیا اور بنو خزاعہ نے مسلمانوں سے معاہدہ کیا، وہ مسلمانوں کے حلیف ہوگئے، ابھی صلح حدیبیہ کو دوسال بھی نہ گزرے تھے کہ بنوبکر نے بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور قریش نے اسلحہ سے بنوبکر کی امداد کی، مزید برآں عکرمہ بن ابی جہل، سہیل بن عمرو اور صفوان بن امیہ نے جو سردارانِ قریش تھے نقاب اوڑھ کر اپنے حوالی اور موالی کے ساتھ حملہ میں بنوبکر کا ساتھ دیا، لہٰذا اللہ کے نبی اپنے حلیف اور دوست قبیلے بنوخزاعہ کی حفاظت کی غرض سے دس ہزار کی جمعیت لے کر ماہِ رمضان ۸ھ میں مکہ کی جانب روانہ ہوئے اور آپ کا قصد یہ تھا کہ اہل مکہ کو اس آمد کی خبر اور اطلاع نہ ہونے پائے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، جب آپ صلے اللہ علیہ وسلم مکہ کے باہر خیمہ زن ہوگئے اور اہل مکہ کو باخبر کرنے کے لیے لشکر میں الاؤ رشن کرنے کا حکم فرمایا تب ان کو خبر ہوئی، رات میں قیام کے بعد صبح کے وقت لشکر اسلام کو مختلف راستوں سے شہر میں داخلہ کا حکم فرمایا اور درج ذیل ہدایات اور احکام پر عمل کرنے اور پابندی کرنے کی تاکید فرمائی: (۱) جو شخص ہتھیار پھینک دے اسے قتل نہ کیا جائے (۲) جو شخص خانہ کعبہ میں چلا جائے اسے قتل نہ کیا جائے (۳) جو اپنے گھر میں بیٹھ جائے اسے قتل نہ کیا جائے (۴) جو شخص ابوسفیان کے گھر چلا جائے اسے قتل نہ کیا جائے (۵) جو شخص حکیم بن حِزام کے گھر چلا جائے اسے قتل نہ کیا جائے (۶) بھاگنے والوں کا تعاقب نہ کیا جائے (۷) زخمی کو قتل نہ کیا جائے (۸) قیدیوں، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کیا جائے، یہ ہدایات اس شخص اور مظلوم کی اس ظالم قوم کے لیے ہیں جس نے جینا دوبھر اور زندگی حرام کررکھی تھی، یہی ہے صفتِ رحمة للعالمین صلے اللہ علیہ وسلم بہرکیف مختلف راستوں سے داخل ہونے والے اسلامی دستوں میں سے صرف حضرت خالد بن ولید رضي الله عنہ  کے دستہ سے کچھ تعارض ہوا، جس میں معارضین کو بھاگنے کی نوبت پیش آئی، باقی تمام دستے بلا مزاحمت داخلِ شہر ہوگئے، آج وہ قوم جو مغولب ومقہور ہوکر ہجرت پر مجبور ہوئی تھی وہی فاتحانہ شان وشوکت کے ساتھ مکہ میں داخل ہورہی تھی؛ اس لیے بعض حضرات کی زبان پر بے ساختہ یہ جملہ آگیا الیوم یوم الملحمہ (آج مقابلہ اور بدلے کا دن ہے) لیکن قربان جائیے اللہ کے نبی رحمة للعالمین صلے اللہ علیہ وسلم پر کہ فوراً روکا اور فرمایاکہ کہو الیوم یوم المرحمہ (آج رحم کرنے اور معاف کرنے کا دن ہے) خدا کے برگزیدہ رسول صلے اللہ علیہ وسلم ۲۰/رمضان ۸ھ کو جب مکہ میں داخل ہوئے اس وقت سرجھائے سورہ الفتح کی تلاوت میں مصروف تھے اور اونٹ پر سوار ہوکر بیت اللہ کی جانب چلے جارہے تھے، وہاں پہنچ کر خدا کے مقدس گھر کو بتوں کی آلائش سے پاک فرمایا، اس وقت خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے، اللہ کے رسول صلے اللہ علیہ وسلم کمان کے گوشے یا چھڑی کی نوک سے ہرایک بت کو گراتے جاتے اور زبانِ مبارک سے پڑھتے جاتے تھے جاء الحقُ وزَھَقَ البَاطِلُ انَّ البَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا (حق کا غلبہ ہوا اور باطل ملیا میٹ ہوا اور وہ اُسی لیے ہے) جَاءَ الحَقُّ وما یُبْدیٴُ الباطِلُ وَمَا یُعِیْدُ (حق آگیا اور باطل نہ کرنے کا رہا نہ دھرنے کا) پھر رحمة للعالمین نے کعبة اللہ کے کلید بردار عثمان بن ابی طلحہ کو بلاکر چابی لی پھر خانہ کعبہ میں جاکر ہر ہر گوشہ میں اللہ اکبر کے ترانے گائے، شکرانے کی نماز ادا کی پھر نہایت عجز وانکساری کے ساتھ اللہ رب العزت کے سامنے پیشانی خاک پر رکھ دی، اسی دوران وہ تمام بڑے بڑے لوگ اور سردارانِ قریش جمع ہوگئے، جنھوں نے متعدد مسلمانوں اور اسلام کا نام لینے والوں کو شہید کیا یا کرایا تھا، سیکڑوں نبی کے جاں نثاروں کو ایذائیں اور تکالیف دے کر گھربار چھوڑنے اور مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا تھا، دین اسلام کو تباہ وبرباد کرنے میں اور مسلمانوں کو ذلیل ورسوا کرنے میں حبشہ، شام، نجد اور یمن تک کے سفر کیے تھے، جنھوں نے مدینة الرسول صلے اللہ علیہ وسلم پر بار بار حملے کئے تھے، مکہ سے ساڑھے تین سو میل دور بھی خدا کے نبی اور اس کے ماننے والوں کو چین کی سانس نہیں لینے دی تھی، حاصل یہ ہے کہ جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کو فنا کرنے میں زر سے، زور سے، تدبیر سے، ہتھیار سے اور تزویر سے اپنا سارا زور صرف کرچکے تھے اور اکیس سال تک اپنی ناکام کوششوں میں برابر منہمک رہے تھے، آج رحمة للعالمین صلے اللہ علیہ وسلم کے سامنے سرجھکائے رحم کی درخواست زبانِ حال وقال سے کررہے تھے اور خدا کے وہ رسول صلے اللہ علیہ وسلم جو رحمة للعالمین کی شان کے ساتھ مبعوث ہوے تھے اس جماعت اور گروہِ قریش کی طرف نگاہِ رحمت سے دیکھ رہے تھے اور اپنی شانِ رحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام حالات کو نظر انداز فرماکر زبانِ رحمت سے کہہ رہے تھے:

یَا مَعْشَرَ قُریش! انَّ اللہَ قَدْ اَذْھَبَ عنکم نخوة الجَاھِلِیَّةِ وتَعَظُّمَھا بالأبَاءِ، الناسُ مِنْ آدَمَ وآدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ ثم تَلاَ رَسُوْلُ اللہِ صَلی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَأیُّھَا النَّاسُ انَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَأنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ أکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ أتْقَاکُمْ (سورة الحجرات)

اے گروہِ قریش! خدا نے تمہاری جاہلانہ نخوت اور آباء واجداد پر اترانے کاغرور آج توڑ دیا (سچ تو یہ ہے) سب لوگ آدم علیہ السلام کے فرزند ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد وعورت سے بنایا اور خاندان وقبیلے سب جان پہچان کے لیے بنائے ہیں اور خدا کے یہاں تو اس کی عزت زیادہ ہے، جس میں تقویٰ زیادہ ہو۔

پھر رحمة للعالمین صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے سردارانِ قریش! اللہ کے رسول سے کس طریقہ کے برتاؤ کی توقع لے کر آئے ہو؟ مکہ والوں نے کہا کہ ہمیں اپنے سردار کے فرزند سے عمدہ سلوک اور اچھے برتاؤ کی امید اور توقع ہے رحمتِ عالم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: آج تمہارے ساتھ وہی معاملہ ہوگا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا، لہٰذا تمام لوگوں کو معاف فرماکر صرف ایسے حضرات کے لیے فرمایا جو زندگی بھر اللہ اور رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے دشمن تھے کہ جہاں ملیں قتل کردیا جائے ایسے لوگوں کی تعداد بھی پندرہ سولہ سے متجاوز نہ تھی؛ لیکن ان میں بھی جو مسلمان ہوکر رحمتِ دوعالم صلے اللہ علیہ وسلم سے رحم کی درخواست کرتے، انہیں بھی معافی دے کر صلہ رحمی کی مثال قائم فرمادی۔

حرفِ آخر

رحمتِ دوعالم صلے اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور مبارک زندگی کو تین ادوار اور حصوں پر تقسیم کیا جاسکتا ہے:

(۱) بعثت و نبوت سے قبل چالیس سال اس پوری مدت اور پورے عرصے میں تمام قریش خواہ اپنے ہوں یا پرائے، چھوٹے ہوں یا بڑے سب ہی آمنہ کے لعل اور عبداللہ کے فرزند پر جاں نثار تھے، شفقت ومحبت سے پیش آتے تھے اور ادب واحترام کی وجہ سے نام نہ لے کر صادق اور امین کے لقب سے پکارتے تھے۔

(۲) دوسرا دور بعثت ونبوت کے بعد سے فتحِ مکہ تک، اکیس سال اس عرصے میں صورتِ حال یکسر بدل گئی تھی اور قریش کا بچہ بچہ اللہ کے رسول صلے اللہ علیہ وسلم کا جانی دشمن تھا اور عداوت ودشمنی میں بھی حد سے متجاوز تھا اور صورتِ حال کے بدلنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ قریش کو اپنی آزادخیالی، بے مہار زندگی اور مذہب وقانون کی بندشوں سے بے پرواہ رہنے جیسی عادت کے لیے اسلام اور بانیِ اسلام دشمن نظر آتے تھے، لہٰذا مذہبِ اسلام اور اسلام کا نام لینے والوں کا نام ونشان مٹانا انھوں نے اپنا مقصدِ زندگی بنالیا تھا۔

(۳) تیسرا دور فتح مکہ سے شروع ہوتا ہے یہ دور مندرجہ دوسرے دور سے بالکل مختلف تھا کہ جو قوم پہلے طاقتور اور زور آور تھی وہ اب کمزور و ناتواں ہوچکی تھی اور جو حضرات دوسرے دور میں بے سروسامانی کے عالم میں تھے وہ خداوند عالم کے فضل وکرم سے بھاری جمعیت اور سازوسامان سے آراستہ ہوچکے تھے اور صورتِ حال اس لحاظ سے بھی بدلی ہوئی تھی کہ دوسرے دور میں جو قوم طاقتور اور زورآور تھی وہ کمزوروں پر ظلم وستم کو روا رکھتی تھی بل کہ کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی تھی اور جو حضرات اس تیسرے دور میں غالب تھے وہ ظلم تو کجا بدلہ لینے کو جائز نہیں کہہ رہے تھے جب کہ عالمی تاریخ بتاتی ہے کہ ہمیشہ فاتح قوم نے مفتوحوں پر ظلم کیا ہے؛ لیکن یہ قوم اقوام کی تاریخ سے سبق لینے یا اس پر عمل کرنے کے لیے نہیں؛ بل کہ ایک ایسی نئی تاریخ رقم کرنے والی قوم تھی اور ہے، جسے تا ابد اقوامِ عالم دیکھتی رہیں اور اس سے سبق لے کر عالم کو فتح کرنے کا راستہ ہموار کریں، اسی کو سیرت نگار اور موٴرخ اسلام لکھتے ہیں کہ: اسلام بزورِ شمشیر نہیں پھیلا؛ بل کہ اسلام کی نشر واشاعت اخلاقِ حسنہ کے ذریعہ ہوئی ہے اور فتح مکہ اس کی زندئہ جاوید مثال ہے کہ قریش کا غرور اور گھمنڈ خاک میں مل چکا تھا اور اپنی زندگی کی بھیک مانگنے کے لیے بیت اللہ شریف میں جمع تھے، اُدھر اللہ کا وہ رسول صلے اللہ علیہ وسلم جو آٹھ سال پہلے اسی مادروطن کو چھوڑنے پر مجبور ہوا تھا اور ساڑھے تین سو میل کے فاصلے پر بھی قریش سے متعدد مرتبہ دق اور پریشان ہوچکا تھا، اگر چاہتا تو بیک زبان ان کی گردن کاٹنے کا حکم فرماتا؛ کیوں کہ ان میں مسلمانوں کے قاتل، نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے بڑے بڑے دشمن، اسد اللہ حضرت حمزہ رضي الله عنہ  کا قاتل، ان کی مبارک نعش کی بے حرمتی کرنے والا اور حضرت حمزہ رضي الله عنہ  کا کلیجہ چبانے والی وغیرہ وغیرہ ایسے بہت سے تھے جن سے نا بھولنے والی ایذائیں اور تکالیف پہنچی تھیں، لیکن اللہ کے رسول رحمة للعالمین صلے اللہ علیہ وسلم ہیں اوروہ حضرت یوسف علیہ الصلوٰة والسلام کے واقعہ کو دوبارہ زندہ فرمانے والے ہیں، لہٰذا وہی معاملہ فرمایا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا آپ نے فرمایاکہ تم سب پر آج کوئی گرفت نہ ہوگی؛ چنانچہ اس اخلاق کا اثر یہ ہوا کہ وہ سب مسلمان ہوگئے، یہ ہے اشاعتِ اسلام کا اصل سبب، اللہ رب العزت تمام ملت کو اخلاقِ نبویہ علی صاحبہا الصلوٰة والسلام پر عمل کرنے کی سعادتِ عظمیٰ نصیب فرمائے، آمین ثم آمین۔

***

----------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 4 ، جلد: 95 ‏، جمادی الاولی 1432 ہجری مطابق اپریل 2011ء